ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر میں غلام نام کا ایک شخص رہتا تھا۔ وہ ایک دفتر میں چپڑاسی کا کام کرتا تھا۔ اس کی زندگی بہت سادہ تھی، مگر اس کے گھر میں سکون بالکل نہیں تھا۔ اس کی بیوی، زبیدہ، بہت جھگڑالو اور مطالبات کرنے والی عورت تھی۔ وہ ہر وقت غلام پر برستی رہتی تھی کہ “غلام، تمہاری تنخواہ بہت کم ہے! ہم اس تھوڑی سی آمدنی پر کیسے گزارا کریں گے؟
تمہیں کسی دوسرے ملک میں کام ڈھونڈنا چاہیے جہاں تم زیادہ پیسے کما سکو۔ میں اب اس غریبی میں نہیں جی سکتی!”
غلام ایک صبر کرنے والا شخص تھا، جو ہر روز اس کی شکایتیں خاموشی سے سنتا رہتا۔ دن بدن زبیدہ کی باتیں اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھیں، اور غلام کو محسوس ہونے لگا کہ وہ مسلسل جھگڑوں میں جکڑا ہوا ہے۔ آخرکار، ایک دن جب زبیدہ کے ساتھ شدید بحث و تکرار ہوئی، تو غلام نے فیصلہ کیا کہ اب بہت ہو چکا۔
“ٹھیک ہے زبیدہ،” غلام نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، “میں کل ہی چلا جاؤں گا۔ تم میرے سفر کے لیے کھانا تیار کرو، میں صبح سویرے نکل جاؤں گا۔”
زبیدہ یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور فوراً اس کے سفر کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی۔ اس نے خوشی خوشی پراٹھے اور قیمہ بھون کر تیار کیا، دو جوڑے کپڑے اور ایک کمبل باندھ کر اس کے لیے تیار کر دیے۔
زبیدہ نے دل میں سوچا، آخرکار یہ کچھ صحیح کرنے جا رہا ہے۔ اس نے غلام کو کپڑے دیتے ہوئے کہا، “جب تک اچھے خاصے پیسے کما کر نہ آؤ، واپس مت آنا!”
غلام نے خاموشی سے سر ہلایا اور مزید کوئی بحث کیے بغیر تھوڑے سے پیسے اپنے کمر میں باندھ کر اگلے دن علی الصبح گھر سے نکل پڑا۔
سورج ابھی پوری طرح نکلا بھی نہ تھا کہ غلام شہر سے باہر نکل آیا۔ جب وہ ایک راستے پر چل رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ سڑک کے کنارے لوگوں کا ایک ہجوم جمع تھا۔ غلام کو تجسس ہوا کہ آخر کیا ہو رہا ہے۔ وہ ہجوم کے قریب آیا اور دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص لمبی داڑھی اور عقلمند آنکھوں والا، لوگوں کو پکار رہا تھا، “کون سو روپے میں تین نصیحتیں خریدے گا؟”
غلام حیران ہوا کہ یہ کیسی نصیحتیں ہوں گی جو سو روپے میں مل رہی ہیں؟ اس کے پاس پیسے بہت کم تھے اور سو روپے اس کی کل جمع پونجی تھی۔ مگر اندر سے کوئی آواز کہہ رہی تھی کہ وہ ان نصیحتوں کو خرید لے، شاید یہ اس کے مستقبل میں کام آئیں۔
Heart Touching Moral Urdu Story
غلام نے زیادہ سوچے بغیر آگے بڑھ کر بوڑھے سے کہا، “بابا، میرے پاس سو روپے ہیں، اور میں آپ کی نصیحتیں خریدنا چاہتا ہوں۔” اس نے پیسے بوڑھے کو دے دیے۔
ہجوم میں موجود لوگ غلام کا مذاق اڑانے لگے کہ اس نے اپنے پیسے ضائع کر دیے۔ مگر غلام نے ان کی باتوں کی پرواہ نہیں کی۔ بوڑھے نے اسے الگ لے جا کر کہا، “بیٹا، یہ تین نصیحتیں یاد رکھنا:
1. کبھی اکیلے سفر نہ کرنا، ہمیشہ کسی کو ساتھ لے کر چلنا۔
2. جب بھی سونے لگو، اپنے بستر کو خود اپنے ہاتھوں سے چیک کر لینا۔
3. اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ بند رکھنا، چاہے کچھ بھی ہو۔
غلام نے سر ہلا کر ان نصیحتوں کو تسلیم کیا، حالانکہ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ اس کے کس کام آئیں گی۔ اس نے بوڑھے کا شکریہ ادا کیا اور جانے لگا تو پوچھا، “بابا، اگر کبھی دوبارہ آپ کو تلاش کرنے کی ضرورت پڑی تو کہاں آؤں؟”
بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا، “میں اندھیر نگری نامی شہر کا وزیر ہوں، وہاں آنا، مجھے وہاں مل لو گے۔”
یہ کہہ کر بوڑھا چلا گیا اور غلام نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ غلام ایک بڑے تالاب کے قریب پہنچا جہاں مینڈک چھلانگیں لگا رہے تھے۔ اسے پہلی نصیحت یاد آئی کہ کبھی اکیلے سفر نہ کرنا۔ غلام نے سوچا کہ “میرے ساتھ تو کوئی انسان نہیں، چلو ایک مینڈک کو ہی ساتھ لے لیتا ہوں۔”
وہ ایک مینڈک کو پکڑ کر اپنے تھیلے میں ڈال دیتا ہے اور ہنستے ہوئے کہتا ہے، “اب میرے پاس ساتھی ہے۔”
سفر کرتے کرتے دوپہر ہو گئی اور غلام کو بھوک اور تھکن نے آ گھیرا۔ وہ ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھا، زبیدہ کے تیار کردہ کھانے کو نکالا اور کھانے لگا۔ پھر نیند کے غلبے میں سو گیا۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک عجیب سی آواز نے غلام کو جگا دیا، جیسے کوئی گھاس میں سرسراہٹ کر رہا ہو۔ غلام گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور دیکھا کہ ایک بڑی کالی سانپ آہستہ آہستہ اس کے تھیلے کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں مینڈک تھا۔ مینڈک زور زور سے ٹرٹرانے لگا، جیسے وہ مدد کے لیے پکار رہا ہو۔ غلام نے فوراً ایک چھڑی اٹھائی اور سانپ پر وار کر دیا، اسے موقع پر مار ڈالا۔
غلام کو احساس ہوا کہ مینڈک کے شور نے اس کی جان بچائی تھی، ورنہ سانپ اسے سوئے ہوئے ڈس لیتا۔ “وہ بوڑھے کی نصیحت نے میری جان بچا لی!” غلام نے خود سے کہا اور سفر دوبارہ شروع کر دیا۔
شام ڈھلنے لگی اور غلام ایک گاؤں میں پہنچا۔ گاؤں کے ایک سرائے کے باہر اس نے پوچھا کہ کیا یہاں رات گزارنے کی کوئی جگہ مل سکتی ہے۔ بھٹیارا، جو اس سرائے کی مالک تھی، نے غلام کو خوش آمدید کہا اور کہا، “ہاں، میرے پاس بہترین کمرہ ہے۔ تم یہاں رکو، میں تمہیں شاندار کھانا بھی دوں گی۔”
غلام نے شکریہ ادا کیا اور سرائے میں داخل ہو گیا۔ بھٹیارا نے اسے بہت عمدہ کھانا دیا اور غلام نے دل بھر کے کھایا۔ جب غلام کمرے میں سونے کے لیے گیا، تو اسے دوسری نصیحت یاد آئی، سونے سے پہلے بستر کو اپنے ہاتھوں سے چیک کر لو۔
وہ پہلے تو اسے نظرانداز کرنے والا تھا، مگر پھر نصیحت پر عمل کیا۔ جیسے ہی اس نے بستر پر ہاتھ پھیرا، تو وہاں ایک اور زہریلا سانپ چھپا ہوا تھا۔ غلام نے فوراً سانپ کو مار دیا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کی جان پھر بچ گئی۔
اگلے دن غلام اس گاؤں کو چھوڑ کر “اندھیر نگری” کی طرف روانہ ہو گیا، جہاں اسے وہ بوڑھا وزیر ملنے والا تھا۔ کئی مہینے گزر گئے اور غلام اس وزیر کے ساتھ رہا۔
غلام کئی دنوں تک سفر کرتا رہا، اور بالآخر وہ “اندھیر نگری” نامی شہر پہنچ گیا۔ یہ شہر عجیب و غریب تھا، یہاں ہر چیز بے ترتیب اور الٹی چلتی تھی۔ نہ دن کا پتا تھا، نہ رات کا، اور لوگ یہاں اپنی زندگی بے فکری سے گزارتے نظر آتے تھے۔ غلام نے شہر میں داخل ہوتے ہی سوچا کہ اسے بوڑھے وزیر کی تلاش کرنی چاہیے، لیکن اس سے پہلے وہ کچھ آرام کرنا چاہتا تھا۔
غلام نے شہر کے مرکزی بازار میں ایک سرائے دیکھی، جہاں اسے رہنے کے لیے کمرہ مل گیا۔ وہ تھکا ماندہ تھا اور اس نے فوراً سونے کا ارادہ کیا۔ لیکن اسے پھر وہ تیسری نصیحت یاد آئی، اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ بند رکھنا، چاہے کچھ بھی ہو۔ غلام نے فوراً اپنے کمرے کا دروازہ اچھی طرح بند کر لیا اور دروازے کی کنڈی لگا دی۔
رات کے وقت اچانک غلام کے کمرے کے باہر سے کسی کی زور زور سے دستک دینے کی آواز آئی۔ غلام ہڑبڑا کر جاگا۔ ایک آدمی دروازے کے باہر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا، “دروازہ کھولو، میں تمہارا دوست ہوں! تمہیں کوئی خطرہ ہے، مجھے اندر آنے دو!” غلام کو کچھ شک ہوا اور اس نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ اس آدمی نے اور بھی زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا، مگر غلام نے دروازہ نہ کھولا اور کہا، “جب تک میری جان کو خطرہ نہیں ہے، میں دروازہ نہیں کھولوں گا!”
آخرکار وہ شخص غصے میں وہاں سے چلا گیا۔ غلام کو کچھ عجیب سا لگا، لیکن وہ مطمئن تھا کہ اس نے بوڑھے کی نصیحت پر عمل کیا اور دروازہ بند رکھا۔
اگلے دن جب غلام بازار میں نکلا تو شہر کے لوگ اس آدمی کے بارے میں بات کر رہے تھے جو رات کو لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتا اور اندر گھس کر ان کی قیمتی چیزیں چرا لیتا تھا۔ غلام کو تب سمجھ آیا کہ اگر وہ رات کو دروازہ کھول دیتا، تو اس کی بھی قیمتی چیزیں چوری ہو جاتیں۔ غلام دل ہی دل میں خوش تھا کہ اس نے نصیحت پر عمل کیا اور اپنی جان و مال کو بچا لیا۔
اب غلام نے فیصلہ کیا کہ وہ بوڑھے وزیر کی تلاش کرے تاکہ اسے اپنے تجربات کے بارے میں بتا سکے۔ وہ شہر کے محل کی طرف گیا اور وہاں کے دربان سے پوچھا، “کیا میں وزیر صاحب سے ملاقات کر سکتا ہوں؟” دربان نے غلام کو محل کے اندر جانے کی اجازت دے دی۔
جب غلام وزیر کے سامنے پہنچا، تو وہ بوڑھا وزیر مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔ غلام نے وزیر کو سلام کیا اور اپنے تجربات سنائے کہ کیسے اس نے تینوں نصیحتوں پر عمل کیا اور اپنی جان بچائی۔
بوڑھے وزیر نے کہا، “بیٹا، تم نے عقلمندی سے نصیحتوں پر عمل کیا اور اسی وجہ سے تم ہر مشکل سے بچ نکلے ہو۔ اب میں تمہیں ایک اور انعام دینا چاہتا ہوں۔” بوڑھے وزیر نے غلام کو ایک قیمتی تھیلا دیا جس میں سونے کے سکے بھرے ہوئے تھے۔
“یہ تمہاری محنت اور سمجھداری کا صلہ ہے۔ اب تم اپنے گھر واپس جا سکتے ہو اور ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ہو۔” غلام نے شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی واپس اپنے شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔
کئی مہینے گزر گئے اور غلام جب اپنے گھر پہنچا تو اس کی حالت بہت بدلی ہوئی تھی۔ وہ اب ایک امیر آدمی تھا۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی زبیدہ نے اسے دیکھا اور حیران رہ گئی۔ “غلام! تم اتنے عرصے بعد واپس آئے ہو، اور تمہاری حالت بھی بدل چکی ہے؟” زبیدہ نے حیران ہو کر کہا۔
غلام نے مسکراتے ہوئے کہا، “ہاں، میں تمہارے لیے بہت سا پیسہ لے آیا ہوں، لیکن اس دوران میں نے ایک بہت بڑا سبق بھی سیکھا ہے۔ زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا، بلکہ عقل اور نصیحتوں پر عمل کرنا ہی اصل دولت ہے۔”
زبیدہ یہ سن کر شرمندہ ہوئی کہ اس نے غلام پر پہلے کیسے دباؤ ڈالا تھا، اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ اب کبھی غلام سے شکایت نہیں کرے گی۔ غلام اور زبیدہ نے نئی خوشحال زندگی کا آغاز کیا، اور غلام ہمیشہ ان تین نصیحتوں کو یاد رکھتا رہا جو اس کی زندگی کا قیمتی اثاثہ بن گئی تھیں۔
یوں غلام کی زندگی نہ صرف مالی طور پر بہتر ہوئی، بلکہ اس کی اور زبیدہ کی زندگی میں سکون بھی آ گیا، اور وہ خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگے
Table of Contents
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.